Tuesday, April 10, 2012

camander hanif shaheed

W اسلام گڑھ کی دھرتی کو شہیدوں غازیوں اور ولیوں کی دھرتی حاصل رہا ہی۔تحریک آزادی کشمیر کے لئے بے شمار شہداء نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا جن میں ایک کمانڈر حنیف شہید بھی ہیں۔کمانڈر حنیف شہید اسلام گڑھ سے پانچ کلومیٹر دور مواہ چھپراں کے مقام پر چوہدری فضل کے گھر 1973ء میں پیدا ہوی۔اپنے بچپن کے ابتدائی ایام کھیل کود میں گزارنے کے بعد وہ طفل مکتب پہنچے اور گورنمنٹ بوائز مڈل سکول میں پرائمری میں داخلہ لے لیا۔ میڑک کا امتخان گورنمنٹ بوائز ہائی سکول سے حاصل کی ۔ اپنے علاقے میں یورپ کی دوڑ اور پیسے کی ریل پیل انہیں اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام رہی۔ اللہ تبارک و تعالی نے ظلم و بربریت کا شکار غلام کشمیر ی قوم کی نجات اور آزادی کے لیے قربانی دینے کے لیے کمانڈر محمد حنیف کا انتخاب کرلیا اسی لیے کمانڈر محمد حنیف تعلیم سمیت ساری سرگرمیاں چھوڑ کر 1989ء  میں کشمیر کی مکمل آزادی اور خود مختاری کے لیے برسرپیکار قافلہ حریت جموں کشمیر لبریشن فرنٹ میں شامل ہو کر سرگرم ہو گئے ۔ تقریباََ پانچ سال تک سیاسی خدمات سر انجام دیں ۔ اپنے علاقے میں تنظیم کو منظم کیا اور گیارہ فروری 1992ء کو تنظیم کی کنٹرول لائن عبور کرنے کی کال پر ایک قافلے کی صورت میں مظفر آباد چکوٹھی پہنچے وہ اسلام گڑھ یونٹ کے صدر بھی رہے لیکن شاید آزادی کی تڑپ اور کام کرنے کی پیاس اس طرح بجھنے والی نہیں تھی انہوں نے 1994ء  میں اپنے گھر بار، والدین اور بہن بھائیوں کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہا اور تنظیم کے عسکری تربیتی کیمپ میں پہنچے عسکری تربیت حاصل کی ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے تنظیم نے ان کو تربیتی کیمپ میں انسٹرکٹر کی ذمہ داری سونپی تقریباََ ایک سال تک اپنے فرائض بخوبی سر انجا م دئیے ۔
1996ء  میں تنظیم نے اپنا تربیتی کیمپ چار بہاڑ سدھنوئی سے تبدیل کر کے سہنسہ لایا۔ 1998 ء  کے آخر میں منزل آزادی کی تلاش میں اپنے ساتھیوں کو ساتھ لیا اور بھارتی مقبوضہ کشمیر کے لیے رخت سفر باندھا اور اس منحوس خونی لکیر کو جو صرف ان کے مادر وطن کشمیر کے سینے پر نہیں بلکہ ان کے دل پر کھینچی گئی تھی اپنے پائوں تلے روندا اور مادر وطن کے اس حصے میں داخل ہو گئے جہاں ظلم و جبر اور استحصال کا بازار گرم ہے اور غاصب انڈین افواج نہتے اور مظلوم عوام پر ظلم و بربریت کی مثالیں قائم کر رہی ہیں۔ اس کوہ مقتل میں کمانڈر محمد حنیف نے 18 ماہ تل اپنی خدمات سر انجام دیں۔ موت کا دیدار کرنا ان کا مزاج بن چکا تھا۔ غاصب افواج سے معرکہ آرائیاں شروع ہو گئیں وہ مظلوم عوام کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لیے قریہ قریہ ، نگر ی نگری گھومتے اور لوگوں کو احساس دلاتے کہ اس بربریت میں آپ تنہا نہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں ان کی حوصلہ افزائی کرتی۔ یہاں ان کے قریبی ساتھی شمریز شاذ جام شہادت نو ش کر گئی۔وہاں اشفاق عاصم ، ساجد قربان اور شہدائے مینڈ ہر بھی کام آگئی۔ ڈیڑھ سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ بالآخر تنظیم نے انہیں واپس بیس کیمپ آنے کی ہدایت کی۔ وہ اپنے ساتھیوں علی اصغر شاہ حسنینی اور کمانڈر شہباز سمیت جنوری 2000ء  کو برف پوش پہاڑیوں اور دشوار گزار رستوں سے بھوکے پیاسے کئی دنوں کی مسافت کے بعد بیس کیمپ پہنچے ۔ یہاں پہنچنے پر پورے آزاد کشمیر میں تنظیمی ساتھیوں نے ان کا بھر پور استقبا ل کیا اور جب وہ اپنے آبائی گائوں پہنچے تو ایک عجیب منظر تھا۔ اپنے رشتہ داروں اور گائوں والوں نے خوشی کے آنسوئوں اور پھولوں کی پتیوں سے ان کا استقبال کیا اور وہ ایک بڑے جلوس کے ساتھ گھر پہنچے ۔بہت کم وقت گھر گزارنے کے بعد پھر اپنے سفر پر چل دئےی۔ جنگلوں اور ویرانوں کے طویل سفر کے بعد اب وہ شہر شہر ، گائوں گائوں جا کر تنظیم کو منظم کرنا شروع ہو گئی۔اپنے ہمدردوں سے تنظیم کے لیے مالی معاونت حاصل کرنا شروع ہو ئے سیاسی جلسہ ہو یا شہداء کانفریس تحریک آزادی کے متاثرین کی ویلفئیر کا کام ہو یا اہلیان میرپور کو ڈبونے والی منگلا ڈیم کی بے رحم لہروں کے خلاف بھرپور احتجاج کرتے رہے اور ایسے ہی ایک قابل ستائش جرم میں اپنے چند ساتھیوں سمیت میرپور میں گرفتار بھی رہے اور میں نے اس وقت اصرار کیا کہ کیوں نہ آپ کی ضمانت کروا لی جائے تو انہوںنے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا صرف حق وسچ کی آواز بلند کی ہے اور اگر اﷲنے چاہا تو بغیر ضمانت کے رہا ہوں گا اور یہی ہوا کچھ ہی دنوں میں ان کے گرفتاری کے خلاف پورے آزاد کشمیر میں مظاہر ے شروع ہو گئے اور حکومت کو انہیں چھوڑنا پڑا۔میرا ان سے تعلق بچپن سے تھااور اچھے دوست بھی تھے لیکن مقبوضہ کشمیر سے واپسی کے بعد کوٹلی کے مقام پر تین ماہ ان کی رفاقت میں گزری۔ہر روز یا وہ مجھے فون کر کے بلا لیا کرتے یا پھر خود آجایا کرتے اور تحریک آزادی کشمیر کے موضع پر سیر حاصل گفتگو کرنے کا موقع بھی ملتا۔ 
11اپریل 2004ء  کو اپنے ایک تحریکی ساتھی جو وطن کے اس پار جا رہے تھے ان کا الوداع کرنے اور کچھ تنظیمی فرائض کی انجام دہی کے لیے لاہور کے لیے رخصت ہوئے ۔ بڑ ے بڑے خطرات سے کھیلنے والے کو کیا خبر تھی کہ آج بہت بڑا خطرا ہے ۔ کمانڈر حنیف رات گیارہ بجے کوٹلی سے بس پر سوار ہوئے ایک ساتھی نے اصرار کیا اپنی گاڑی لے چلیں گے جواب یہ تھا کہ خراچہ زیادہ ہو گا ۔ تنظیم کے سرمائے کی اتنی حفاظت کرنے والے کو کیا خبر تھی کہ آج تنظیم کتنے بڑے سرمائے سے محروم ہونے والی ہی۔ صبح تقریباََ ساڑھے چھ بجے لاہور کے قریب مرید کے کے مقام پر گاڑی ایکسیڈنٹ ہو گئی۔ کمانڈر حنیف خالق حقیقی سے جا ملی۔ اپنے کام بہت جلدی کرنے والا ، بہت جلدی کر گیا۔ پوری قوم کا وارث لا وارث ہو کر دیا غیر میں ہمیشہ کی نیند سوئے کئی گھنٹوں تک اپنوں کا انتظار کرتا رہا۔ شہادت کی خبر سن کر ہر کوئی نم آنکھوں کہتا کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہ ہو چکا تھا ۔ مورخہ 12اپریل انہیں اپنے آبائی گائوںمواہ چھپراں لایا گیا ۔جہاں ہزاروں افراد کی موجود گی میں انہیں سپرد خاک کر دیا گیا۔ہر سال2اپریل کو ان کی برسی مواہ رڑاہ کے مقام پر انتہائی عقیدت واحترام سے منائی جاتی ہے جس میں ہزاروں افراد شریک ہوتے ہیں
camander hanif shaheed 

No comments:

Post a Comment