W اسلام گڑھ کی دھرتی کو شہیدوں غازیوں اور ولیوں کی دھرتی حاصل رہا ہی۔تحریک آزادی کشمیر کے لئے بے شمار شہداء نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا جن میں ایک کمانڈر حنیف شہید بھی ہیں۔کمانڈر حنیف شہید اسلام گڑھ سے پانچ کلومیٹر دور مواہ چھپراں کے مقام پر چوہدری فضل کے گھر 1973ء میں پیدا ہوی۔اپنے بچپن کے ابتدائی ایام کھیل کود میں گزارنے کے بعد وہ طفل مکتب پہنچے اور گورنمنٹ بوائز مڈل سکول میں پرائمری میں داخلہ لے لیا۔ میڑک کا امتخان گورنمنٹ بوائز ہائی سکول سے حاصل کی ۔ اپنے علاقے میں یورپ کی دوڑ اور پیسے کی ریل پیل انہیں اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام رہی۔ اللہ تبارک و تعالی نے ظلم و بربریت کا شکار غلام کشمیر ی قوم کی نجات اور آزادی کے لیے قربانی دینے کے لیے کمانڈر محمد حنیف کا انتخاب کرلیا اسی لیے کمانڈر محمد حنیف تعلیم سمیت ساری سرگرمیاں چھوڑ کر 1989ء میں کشمیر کی مکمل آزادی اور خود مختاری کے لیے برسرپیکار قافلہ حریت جموں کشمیر لبریشن فرنٹ میں شامل ہو کر سرگرم ہو گئے ۔ تقریباََ پانچ سال تک سیاسی خدمات سر انجام دیں ۔ اپنے علاقے میں تنظیم کو منظم کیا اور گیارہ فروری 1992ء کو تنظیم کی کنٹرول لائن عبور کرنے کی کال پر ایک قافلے کی صورت میں مظفر آباد چکوٹھی پہنچے وہ اسلام گڑھ یونٹ کے صدر بھی رہے لیکن شاید آزادی کی تڑپ اور کام کرنے کی پیاس اس طرح بجھنے والی نہیں تھی انہوں نے 1994ء میں اپنے گھر بار، والدین اور بہن بھائیوں کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہا اور تنظیم کے عسکری تربیتی کیمپ میں پہنچے عسکری تربیت حاصل کی ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے تنظیم نے ان کو تربیتی کیمپ میں انسٹرکٹر کی ذمہ داری سونپی تقریباََ ایک سال تک اپنے فرائض بخوبی سر انجا م دئیے ۔
11اپریل 2004ء کو اپنے ایک تحریکی ساتھی جو وطن کے اس پار جا رہے تھے ان کا الوداع کرنے اور کچھ تنظیمی فرائض کی انجام دہی کے لیے لاہور کے لیے رخصت ہوئے ۔ بڑ ے بڑے خطرات سے کھیلنے والے کو کیا خبر تھی کہ آج بہت بڑا خطرا ہے ۔ کمانڈر حنیف رات گیارہ بجے کوٹلی سے بس پر سوار ہوئے ایک ساتھی نے اصرار کیا اپنی گاڑی لے چلیں گے جواب یہ تھا کہ خراچہ زیادہ ہو گا ۔ تنظیم کے سرمائے کی اتنی حفاظت کرنے والے کو کیا خبر تھی کہ آج تنظیم کتنے بڑے سرمائے سے محروم ہونے والی ہی۔ صبح تقریباََ ساڑھے چھ بجے لاہور کے قریب مرید کے کے مقام پر گاڑی ایکسیڈنٹ ہو گئی۔ کمانڈر حنیف خالق حقیقی سے جا ملی۔ اپنے کام بہت جلدی کرنے والا ، بہت جلدی کر گیا۔ پوری قوم کا وارث لا وارث ہو کر دیا غیر میں ہمیشہ کی نیند سوئے کئی گھنٹوں تک اپنوں کا انتظار کرتا رہا۔ شہادت کی خبر سن کر ہر کوئی نم آنکھوں کہتا کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہ ہو چکا تھا ۔ مورخہ 12اپریل انہیں اپنے آبائی گائوںمواہ چھپراں لایا گیا ۔جہاں ہزاروں افراد کی موجود گی میں انہیں سپرد خاک کر دیا گیا۔ہر سال2اپریل کو ان کی برسی مواہ رڑاہ کے مقام پر انتہائی عقیدت واحترام سے منائی جاتی ہے جس میں ہزاروں افراد شریک ہوتے ہیں
camander hanif shaheed
No comments:
Post a Comment