تحریر رائو اسلم فراز
پنجاب سندھ اور بلوچستان کی طرح سرگودہا بھی قیام پاکستان سے
بہت پہلے سے ہی روائتی جاگیردارانہ سیاست کے چنگل میں جکڑا ہوا تھا اور
قیام پاکستان کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔جاگیریں تو سابق وزیر اعظم
ذوالفقار علی بھٹو شہید نے ختم کر دیں تھیں مگر فیوڈل سوچ مقامی سیاست پر
حاوی رہی۔سرگودہا کی سیاست ٹوانوں،لکوں اور قریشیوں کے گھر کی باندی تھی،
جو اپنے اپنے ڈیروں پر بیٹھ کر سیاست کی ڈوریاں گھمایا کرتے تھی۔
1979 میں جب سابق صدر ضیاء الحق نے بلدیاتی انتخابات کا اعلان کیا تو
25بلاک کا ایک نوجوان، جس کا نہ تو کوئی سیاسی پس منظر تھا اور نہ ہی اسے
کسی وڈیرے کی سرپرستی حاصل تھی، سیاسی جاگیرداروں کے حمایت یافتہ امیدوار
کو شکست دیکر کونسلر منتخب ہو گیا۔ اس وقت کسی کے وہم گمان میں بھی نہ
تھا کہ سائیکلوں کی دکان چلانے والا یہ نوجوان کونسلر سرگودہا کی سیاست
کا رخ موڑ کر رکھ دے گا، 1984 میں جب دوبارہ بلدیاتی انتخابات ہوئے تو یہ
نوجوان اپنی بہترین کارکردگی اور بے مثال عوامی خدمت کے باعث دوبارہ
کونسلر منتخب ہوگیا اور اس کے ایک برس بعد ہی یہ نوجوان جاگیردارانہ
سیاست کا پانسہ پلٹ کر سرگودہا کا پہلا عوامی میئر منتخب ہوگیا اور پھر
دنیا نے دیکھا کہ میونسپل کارپوریشن کی وہ راہداریاں جہاں عام آدمی جھانک
بھی نہیں سکتا تھا عوام کے لیئی؛ماسی ویہڑا ؛ بن گئیںاور اب ہر کہ و مہ
شہر کا میئر تھا،گھاگ سیاست دانوں کی شاطرانہ چالیں ناکام بنا کر میئر کا
حلف اٹھانے والا یہ نوجوان جو دوبار شہر کا میئر، دوبار ایم ہی اے اور
ایک بار ایم این اے بنا عوام میں میئر حمید کے نام سے مقبول ہوا۔
چوہدری عبدالحمید کو اگر سرگودہا کا ٹرینڈمیکر سیاستدان
کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا 1984سے ان کی سیاسی فتوحات کا شروع ہونے
والا یہ سلسلہ 1998کی میاں نواز شریف کے خلاف فوجی بغاوت تک محیط ہے اپنی
بھرپور سیاسی زندگی کے 32 برسوں میں انہوں نے بڑے بڑے سیاسی اتار چڑھائو
دیکھی، وہ ایک با اصول سیاسدان تھے میاں نواز شریف کی آواز پر لبیک کہتے
ہوئے مسلم لیگ میں شامل ہوئے تو مرتے دم تک اس کا ساتھ نہ چھوڑا
سٹیشن ڈائریکٹر چوہدری افتخار کی ہدایت پرکچھ دن پہلے ریڈیو
ایف ایم6 کے پروگرام ؛ہم اور آپ؛ کے لیئے میں سفیان وحیدکے ہمراہ چوہدری
عبدالحمید کی رہائش الجنت گیا تووہ بیماری کے باعث وہ خاصے نحیف نظر
آرہے تھے اور ان کے با ریش چہرے پرگردش دوراں کی لکیریں نمایاں تھیں۔میں
خاصے طویل عرصے کے بعد ان سے مل رہا تھا بیماری سے پیدا ہونے والی جسمانی
نقاہت کے باوجود ان کی آوازمیں وہی گھن گرج باقی تھی جو ان کے مزاج کا
حصہ ہوا کرتی تھی اور ملتے ہی انہوں نے اپنیچشمے سے آنکھیں باہر نکالتے
ہوئے وہی مخصوص جملہ پھینکا جو ہمیشہ مجھ سے ملتے ہوئے وہ کہا کرتے تھے
رانا صاحب ! توں ترقی نہیں کر سکدا '' وہ مجھے ہمشہ رائو کی بجائے رانا
صاحب کہہ کر بلاتے تھے جس پر مجھے کبھی اعتراض نہیں ہوا کیوںکہ ان کے اس
جملے میں میرے لیے جو پیار اور خلوص ہوتا تھا اسے صرف میں ہی محسوس کر
سکتا تھا ، سفیان شاید زندگی میں پہلی بار ان کے ہاںگیا تھا اس کے ذہن
میں ان کے مخالف سیاستدانوں کا وہ پراپیگنڈا گھوم رہا تھا کہ چوہدری حمید
نے بڑی لٹ مار '' کیتی اے ، الجنت کے درو دیوار سیٹپکتی ہوئی عسرت اور
اکھڑتا ہوا رنگ و روغن دیکھ کر میں تو چوہدری عبدالحمید کا وہ دور یاد کر
رہا تھا جب آج کے بزعم خود بڑے بڑے سیاستدان اسی الجنت کی راہداریوں میں
ان کا پانیبھرتے نظر آتے تھے سفیان کی بات نے مجھے چونکا دیا '' رائو
صاحب لوگ تو کہتے ہیں چوہدری حمید نے شہر کو بری طرح سے لوٹا مگر ان کے
گھر کی حالت کچھ اور ہی کہانی سنا رہی ہے وہاں واقعی یہ کہانی کچھ اور ہے
میں نے ٹھنڈی سانس بھر کر جواب دیا تھا ۔ وہ دوستوں کے دوست تھے ان سے
بڑا دھڑے باز سیاستدان میں نے آج تک نہیں دیکھا میئر بننے کے بعد سے لے
کر میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹے جانے تک سرگودھا میں چہار اطراف
ان کا طوطی بولتا تھا ۔ مسلم لیگ ن کے ساتھ رشتہ جوڑا تو مرتے دم تک اس
کا ساتھ نبھایا اور بڑی بڑی پیشکشیں ٹھکرا دیں نیب کے مقدمے اور قید وبند
کی صعوبتیں بھی ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ لا سکیں ، ضلع بھر کے
سیاستدان ان سے خائف مگر عام لوگ ان کی محبتوں کیاسیر تھے ۔وہ اپنے تمام
حلقے کے ایک ایک فرد اور اس کے مسائل ذاتی طور پر جانتے اور انہیں حل
کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے آج اگر سرگودھا شہر روایتی وڈیرے
سیاستدانوں کی دستبرد سے محفوظ ہے تو یہ کریڈٹ چوہدری عبدالحمید کا ہے
کئی بار سرگودہا کے بڑے سیاستدانوں نے شہر کا رخ کرنے کی کوشش کی مگر ہر
بار انہیں منہ کی کھانا پڑی آپ سرگودہا میں جدید سیاست کا دبستان تھے آج
دوسری جماعتوں میں اور خود مسلم لیگ ن میں جو بڑے بڑے لیڈر کہلواتے ہیں
انہوں نے چوہدری عبدالحمید کی انگلی پکڑ کر ہی سیاست کے میدان میں چلنا
سیکھا ۔سیاست
Sپھولوں کی سیج نہیں اور نہ ہی کوئے سیاست کے راستوں میں سدا پھول نچاور
ہوا کرتے ہیں چوہدری عبدالحمید کے بارے میں اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ
قسمت کے دھنی تھے لیکن میں نے انہیں بہت قریب سے دیکھا ہے انہوں نے بڑی
محنت جذبوں کی سچائی اور اخلاص کے ساتھ اپنا سیاسی مقدار سنوارا تھا اگر
وہ قسمت کے دھنی ہوتے تو ان کے وہ ساتھی ان کے ساتھ کبھی دغا نہ کرتے
جنہیں انہوں نے اپنے ہاتھوں سے تراش خراش کر سیاست کا تاجدار بنایا ۔ اس
معاملے میں وہ انتہائی بدقسمت تھے کہ جن دوستوں پر انہوں نے نوازشات کی
بارش کی وہی ان کے خلاف کرپشن کے جھوٹے الزامات میں سلطانی گواہ بن گئے ۔
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تاریخ کسی کو معاف نہیں کیا کرتی چوہدری
عبدالحمید اپنی زندگی کی سانسیں پوری کرکے منوں مٹی تلے آسودہ خاک ہیں
اور انکی عوامی اور سیاسی خدمات پر ان کے مخالفین بھی انہیں خراج عقیدت
پیش کررہے ہیں سرگودہا کی سیاسی تاریخ مین ان کا نام ایک درخشندہ باب بن
کر جگماتا رہے گا جبکہ دوسری جانبان سے دغا کرنے والے آج بھی دربدر ہیں
اور کل کا مورخ بھی انہیں لنکا ڈھانے والے گھر کے بھیدیوں سے زیادہ اہمیت
نہیں دی گا
یہ ایک رسمی جملہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے کہ چوہدری عبدالحمید کے انتقال
سے جہاں میاں نواز شریف ضلع سرگودہا میں ایک انتہائی قابل اعتماد
ساتھی،دوست اور سیاسی کارکن سے محروم ہوئے ہیں وہاں سرگودہا کی عوامی
سیاست میں انکی وفات سے پیدا ہونے والا خلاء شاید کبھی پورا نہ ہوسکے ۔
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل۔۔۔۔۔۔۔۔
--
Rizwan Ahmed Sagar
Bhalwal(Sargodha)
03458650886/03006002886
Email.sagarsadidi@gmail.com
No comments:
Post a Comment