Thursday, December 1, 2011

خطے میں امریکی بھارتی سرجیکل تبدیلی کامنصوبہ۔چودھری احسن پر یمی

خطے میں امریکی بھارتی سرجیکل تبدیلی کامنصوبہ۔چودھری احسن پر یمی

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان نے بون کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ
کر کے بون کا نفرنس کو ناکام بنا دیا ہے ۔اگرچہ بون کانفرنس میں لگ بھگ نوے
ممالک کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں لیکن چونکہ بون کانفرنس میں افغانستان کے
مستقبل بارے لائحہ عمل تیار ہونا تھا اس ضمن میں اس کا ہمسایہ پاکستان کی شرکت
ناگزیر تھی اس کی عدم شرکت نے بون کانفرنس کو ناکام بنا دیا ہے۔جبکہ یہ بھی
خیال کیا جارہا ہے کہ پاکستان پر حالیہ امریکی حملے کا مقصد کچھ ایسے حالات
پیدا کرنا ہے کہ امریکہ نیٹو سے اتحاد توڑ کر بھارت سے مل کر نام نہاد دہشت
گردی کی جنگ کی آڑ میں اس خطے میں اپنے ناپاک عزائم کی تکیل کرنا چاہتا ہے اس
ضمن میں امریکہ اور بھارت کا ایک معاہدہ موجود بھی ہے۔یہ بھی خیال کیا جارہا
ہے۔امریکہ اب بھارت کے ساتھ مل کر اس علاقے میں سرجیکل تبدیلی لانا چاہتا ہے
نیز وہ اب ایسے حربے اختیار کررہا ہے جن کا مقصد پاکستان کو چین کی قربت سے
دور کر نا ہے۔جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہوا،اس سے نا
صرف قیمتی جانیں ضائع ہوئیں بلکہ کھربوں روپے کی سرمایہ کاری بھی پاکستان نہ
آسکی۔گزشتہ بدھ کو لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اطلاعات کا کہنا
تھا کہ عالمی برادری کو پیغام مل گیا کہ وہ دن گئے جب ان کی ہر بات تسلیم کر
لی جاتی تھی۔ حکومت کسی مسلح گروپ یا طالبان سے مذاکرات نہیں کر رہی،جو شخص یا
لوگ حکومت کی رٹ کو تسلیم کریں اور ہتھیار پھینک دیں صرف ان سے مذاکرات ہو
سکتے ہیں۔ فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ صدر پر تنقید کرنے والوں کو یہ
نہیں پتا کہ چیف ایگزیکٹو کون ہے۔ وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ صدر اور
وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ مشکل کی اس گھڑی میں
میڈیا کا رول انتہائی اہم ہے۔ میڈیا عوام کو ایک قوم بنانے میں اپنا کردار ادا
کرے۔ جبکہ پاکستان نے بون میں افغانستان کے مستقبل پر ہونے والی عالمی کانفرنس
میں شرکت نہ کرنے کی جرمنی کی باضابطہ درخواست مسترد کر دی ہے۔ جرمن چانسلر
انگیلا مرکِل نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے ا ±ن
سے بون کانفرنس کا بائیکاٹ کرنے کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست کرتے ہوئے
کہا کہ پاکستان کی شرکت اس اجلاس کو بامقصد بنانے میں معاون ثابت ہو گی۔دونوں
رہنماو ¿ں کی بات چیت کے بعد بتایا گیا کہ جرمن چانسلر نے اصرار کیا اجلاس میں
پاکستان کی نشست خالی نہیں ہونی چاہیئے اور وزیر اعظم گیلانی اپنی وزیر خارجہ
حنا ربانی کھر کو نمائندگی کے لیے بھیج دیں۔"وزیر اعظم نے معذرت کرتے ہوئے کہا
کہ وہ جرمن چانسلر کی اس خواہش کو پورا نہیں کر سکیں گے۔" انگیلا مرکل نے
پاکستانی سفیر کو بون کانفرنس میں شرکت کی اجازت دینے پر بھی اصرار کیا جس پر
وزیر اعظم گیلانی نے انھیں بتایا کہ وہ یہ معاملہ پارلیمان کی قومی سلامتی
کمیٹی پر چھوڑتے ہیں اور وہ جو بھی فیصلہ کرے گی ا ±س کے بارے میں جرمن چانسلر
سے رابطہ کر کے وہ خود ا ±نھیں مطلع کریں گے۔اس سے قبل وزیر اعظم نے بین
الاقوامی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان
کی اپنی سلامتی اور خودمختاری خطرات سے دوچار ہو گئی ہے اس لیے وہ کسی دوسرے
ملک میں امن کی کوششوں میں تعمیری کردار ادا نہیں کر سکتا۔امریکی وزیر خارجہ
ہلری کلنٹن اور افغان صدر حامد کرزئی بھی پاکستانی رہنماو ¿ں پر بون کانفرنس
کے بائیکاٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کے حوالے سے زور دے چکے ہیں۔گزشتہ دنوں کراچی
میں ایک تقریب کے بعد وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے
ہوئے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے ہرممکن تعاون کیا ہے
کیونکہ دونوں ملکوں کا استحکام ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ
افغانستان میں امن قائم ہو۔"مگر جب افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف
استعمال ہوئی ہے اس لیے احتجاجاً ہم وہاں (جرمنی) نہیں جانا چاہتے۔ ہمیں ملک
کی سالمیت اور دفاع کے لیے کام کرنا ہے۔ اگر ہم آپ کی سالمیت کے لیے کوشش کر
رہے ہیں اور ہمیں آپ کے لیے بون جانا ہے تو ہماری سلامتی کی کون گارنٹی دے
گا۔"وزیر اعظم نے بتایا کہ امریکہ سے شمسی ائربیس خالی کروانے کے لیے پاکستانی
فوجی حکام کی طرف سے باضابطہ طور پرخط بھیجا جا چکا ہے جس میں 11 دسمبر تک اس
فوجی تنصیب کو خالی کرنے کا کہا گیا ہے۔ جبکہ وزیر دفاع چودھری احمد مختار نے
کہا ہے کہ جب تک امریکہ معافی نہیں مانگتا اس کے ٹرکوں اور کنٹینرز کو پاکستان
سے نہیں گزرنے دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا معافی مانگی گئی تو اس پر غور کیا
جائے گا۔صحافیوں کی جانب سے پوچھے گئے سوال پر کہ معافی مانگے جانے کی صورت
میں پاکستان کا رویہ کیا ہوگا، وزیر دفاع نے کہا کہ جب تک امریکہ معافی نہیں
مانگتا اس کے ٹرکوں اور کنٹینرز کو پاکستان سے گزرنے نہیں دیا جائے گا۔احمد
مختار نے کہا:'یہ اپنا دوسرا راستہ ڈھونڈیں تو انہیں کیا ملتا ہے، پہاڑیاں
ملتی ہیں جن پر ابھی بھی برف جمی ہوئی ہے۔ یہ لوگ وہ راستہ استعمال نہیں کر
سکتے اور پھر ہمارے پاس ہی آئیں گے۔ یہ ان کی مجبوری ہے اور جب یہ معافی
مانگیں گے تو تب ہم ان کو معاف کریں گے عوام کی اجازت سے۔'اس سے قبل وزیر
خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ اب امریکہ سے جو بھی تعاون ہوگا وہ تحریری اور
اصولوں کی بنیاد پر ہوگا اور اگر امریکہ یا نیٹو نے دوبارہ مہمند حملے جیسی
کارروائی کی تو ان کے ساتھ تعاون پر نظر ثانی کی جائے گی۔پاکستان کی پارلیمنٹ
کے ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے سامنے بیان دیتے ہوئے حنا
ربانی کھر نے کہا کہ 'خون فوجی کا ہو یا سویلین کا، خون خون ہی ہے اور ہمارے
فوجی کا خون بھی اتنا ہے قیمتی ہے جتنا نیٹو یا امریکہ کے فوجی کا۔'انہوں نے
کہا کہ جب تک امریکہ ڈرون حملے نہیں روکتا، ہماری خود مختاری اور سلامتی کی
ضمانت نہیں دیتا ہمارے لیے ان کا ساتھ دینا مشکل ہوگا۔پاکستانی پارلیمنٹ کے
ایوان بالا کی کمیٹی کے سامنے یہ بیان انہوں نے کمیٹی کے اجلاس کے دوران مہمند
ایجنسی میں نیٹو افواج کی جانب سے پاکستانی فوجی چوکی پر حملے کے بارے میں
ارکان کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے دیا۔کمیٹی کے سربراہ سلیم سیف اللہ خان اور
ارکان سینیٹر پرفیسر خورشید احمد، عباس خان، ایس ایم ظفر، اسلام الدین شیخ،
جہانگیر بدر اور نیر بخاری کے مختلف سوالوں کے جواب میں وزیر خارجہ کا کہنا
تھا کہ 'اب بہت ہوگیا، یہ کوئی پہلا حملہ نہیں تھا۔'وزیر خارجہ کے مطابق نیٹو
نے اتحادی ہوتے ہوئے اپنے اتحادی پر آٹھ حملے کیے جن میں بہتّر سیکیورٹی
اہلکار ہلاک اور دو سو ستاون زخمی ہوئے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ 'مہمند ایجنسی کا
واقعہ کسی صورت قابل قبول نہیں اس پر ہم خاموش نہیں بیٹھ سکتے۔ نیٹو نے ریڈ
لائن کراس کی تو پھر ہم نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ اب امریکہ اور اس کے اتحادیوں
کے ساتھ تعاون کی تمام شرائط پر نظر ثانی ہو گی، اس پر کام جاری ہے اب امریکہ
سے جو بھی تعاون ہوگا وہ تحریری اور اصولوں کی بنیاد پر ہوگا۔' کمیٹی کے
سربراہ سلیم سیف اللہ خان نے اجلاس کے حوالے سے کہا کہ اس واقعے کے اثرات دور
رس ہوں گے اور اگر کسی کا خیال ہے کہ اگلے ہفتے نیٹو کنٹینر سروس بحال ہو جائے
گی یا پھر شمسی بیس پر سرگرمی شروع ہو جائے گی تو اب ایسا نہیں ہو گا۔انہوں نے
کہا کہ کمیٹی کے ارکان میں اس حوالے سے اتفاقِ رائے پایا گیا کہ پاکستان کو
سخت ترین موقف برقرار رکھنا چاہیے۔جبکہ امریکہ کی وزیرخارجہ ہلری کلنٹن نے
افغانستان کے مستقبل پر آئندہ ہفتے ہونے والی بون کانفرنس میں پاکستان کی عدم
شرکت کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ ا ±مید بھی ظاہر کی
ہے کہ مستقبل میں اسلام آباد کا تعاون حاصل کر لیا جائے گا۔جنوبی کوریا میں
ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ہلری کلنٹن نے بتایا کہ امریکہ کی طرح
پاکستان بھی "ایک محفوظ، مستحکم، پائیدار اور جمہوری افغانستان میں بڑی دلچسپی
رکھتا ہے۔"امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کو نیٹو
کے اس فضائی حملے پر غور کرنے کی ضرورت ہے جس میں متنازع حالات میں 24
پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے، تاکہ دونوں ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھ
سکیں۔ ا ±نھوں نے اسے "المناک واقعہ" قرار دیتے ہوئے اس کی جلد اور مفصل
تحقیقات کے عزم کا اظہار کیا۔پاکستان نے ایک روز قبل اعلان کیا تھا کہ وہ اس
واقعے کے خلاف احتجاجاً جرمنی کے شہر بون میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت نہیں
کرے گا۔افغان صدر حامد کرزئی نے بھی پاکستان کو اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی
کرنے کو کہا تھا۔ انھوں نے پاکستانی یوسف رضا گیلانی کو فون کرکے اس واقعے پر
افسوس کا اظہار کرتے
ہوئے کہا تھا کہ وہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ہونے والی کانفرنس کا
بائیکاٹ نہ کریں۔پاکستانی عسکری حکام کا ماننا ہے کہ نیٹو کا یہ حملہ دانستہ
تھا۔ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز میجر جنرل اشفاق ندیم کے مطابق یہ واضح نہیں
کہ امریکہ کی جانب سے اس حملے کی تحقیقات میں پاکستان شامل ہو گا یا نہیں۔بون
میں ہونے والی کانفرس میں افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد
ملک میں ترقی اور استحکام کے لیے لائحہ عمل ترتیب دینے پر بات چیت ہوگی۔ اکثر
مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ افغانستان میں امن کا دار و مدار اس سلسلے میں
پاکستان کے تعمیری کردار پر ہے۔وائٹ ہاو ¿س کا کہنا ہے کہ بون کانفرنس
افغانستان کے مستقبل کے بارے میں بہت اہم ہے جس میں پاکستان اپنا اہم کردار
ادا کرے گا۔


--


--
Rizwan Ahmed Sagar
Bhalwal(Sargodha)
03458650886/03006002886
Email.sagarsadidi@gmail.com

No comments:

Post a Comment